Mohsin e Insaniyat Essay in Urdu

مضمون نویسی: محسن انسانیت

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کے سب سے بڑے محسن ہیں وہ زندگی کے ہر شعبے کے ہر انسان کے لیے احسان کرنے والے بن کر آۓ۔
-:بقول شعر

جس کی آمد کو صدیاں ترستی رہیں🔸
اے خوشا! ہم کو وہ مہرباں مل گیا

مقصد تخلیق انسان

انسان کو ایک خاص مقصد کے تحت دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ وہ مقصد اللہ کی رضا کا حصول اور اس کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا ہے تب انسان دنیا اور آخرت میں کامران ہو گا۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ احسان عظیم ہے کہ انھوں نے اپنی 23 سالہ محنت سے وہ دین انسانوں تک پہنچایا اور اپنے عمل سے اس کی مثال مہیا کی۔ جس پر عمل پیرا ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے اور دنیوی و اخروی کامیابی کے اہل بن سکتے ہیں۔
-:بقول شاعر

خطا کار بندوں پہ لطف مسلسل🔸
شفاعت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے انسانیت کا حال

زمانہ قبل از اسلام میں عرب قبائل سرکش اور باہم متضاد تھے۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے جھگڑتے اور خون کا بازار گرم تھا۔ معمولی باتوں پر قبائل میں طویل لڑائیاں ہوتیں۔ انسانوں میں عداوت٫ حسد اور بغض عام تھا۔ عورت کو کوئی مقام حاصل نہ تھا بیٹی زندہ درگور کی جاتی۔ سود خوری میں نسلیں غلام بن جاتیں۔ فرسودہ رسوم و رواج عام تھے۔ بت پرستی تھی۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعثت سے یہ سارا منظر نامہ بدل گیا۔ آپ کی بدولت انسان بھائی بھائی بن گئے۔عورت کو ماں بہن بیوی بیٹی کی حیثیت سے عزت حاصل ہوئی۔ سود خوری حرام قرار پائی غلاموں کو نجات ملی یتیموں٫ بیواؤں اور بے کسوں کو سہارا ملا۔

اوس اور خزرج دو اہم قبیلے تھے جن میں اختلافات صدیوں سے چل رہے تھے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اوس اور خزرج کے مسلمانوں کو بھائی بھائی بنایا جغرافیائی تقسیم کو ختم کیا۔ مہاجرین اور انصار کو بھائی بھائی بنایا اور انہوں نے ایک عظیم مثال قائم کی۔ نسلی اختلافات کو ختم کیا۔ حضرت زید بن حارث جو ایک غلام تھے اور حضرت جعفر طیار جو ہاشمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنا کر نسلی اختلافات کا خاتمہ کیا۔
-:بقول شاعر

وہ اوس اور خزرج کی باہم لڑائی🔸
صدی نصف جس میں انہوں نے گنوائی

عورت کا اسلام میں مقام

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے پہلے عورت کی ذلت اور بے قدری عام تھی۔ اسے ماں بہن بیوی بیٹی کی حیثیت سے مقام حاصل نہ تھا۔ وراثت کی وہ حق دار نہیں تھی۔ اہل عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طبقے پر خاص احسان فرمایا۔ عورت کو ماں بہن بیوی بیٹی کی حیثیت عزت بخشی۔ جنت کو ماں کے قدموں تلے قرار دیا۔ فرمایا کہ “وہ شخص قیامت کے روز میری دو انگلیوں کی طرح میرے قریب ہو گا جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی۔” وراثت میں عورت کا حق مقرر کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی رضاعی بہن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے تشریف لاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کندھوں سے چادر اتار کر اس کے بیٹھنے کے لیے بچھا دیتے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینے سے باہر جاتے تو سب سے آخر میں اپنی بیٹی سے ملتے اور اگر واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے اپنی بیٹی سے ملنے تشریف لے جاتے۔ اپنی ازواج میں انصاف اور اکرام کو رواج دیا یوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل سے عورت کی تکریم اور احترام کا عمل نمونہ مہیا کیا۔ پسا ہوا یہ طبقا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احسانات کی بدولت قابل تکریم بنا۔ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کے ساتھ تھے اور فرمایا وہ شخص بڑا بد قسمت ہے دوسری اور تیسری بار بھی یہی فرمایا تو صحابہ نے پوچھا کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” جس کی ماں زندہ ہو اور اس کی دعا قبول نہ ہو “
بیوی کی حیثیت سے جو حق اسلام نے دیا وہ دوسرے کسی مذہب نے نہیں دیا۔

دشمنوں کے محسن

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مخالفین اور اپنے دشمنوں کے محسن تھے۔ انہوں نے کبھی اپنے ہاتھوں سے کسی جنگ میں کسی دشمن کو قتل نہیں کیا۔ وہ اس عورت کی تیمارداری کرتے رہے جو ان پر کوڑا پھینکا کرتی تھی۔ اس وحشی بن حرب کو معاف کر دیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کے درپے تھے اور جن کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے مکہ معظمہ چھوڑا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رہتی دنیا تک مثال قائم کر دی کہ معاف کر دینا بہت بڑی نیکی ہے۔

سلام اس پر کہ جس نے خون کے پیاسوں کو ردائیں دیں🔸
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دی

اخلاق کی تکمیل

اخلاق خلق کی جمع یے۔ جس کے معنی برتاؤ کے ہیں۔ ایک فرد کا دوسرے فرد کے ساتھ رویہ جس سے پیش آتا ہے۔ یہ اخلاق کہلاتا ہے۔ انسان گروہی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وہ تنہا رہ کر اپنی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا۔ وہ مل جل کر زندگی گزار سکتا ہے اس طرح رہنے سے رشتے تشکیل پاتے ہیں۔ کچھ خونی نوعیت کے ہوتے ہیں جن میں ماں باپ بہن بھائی وغیرہ۔ جذبات کی بنا پر بھی رشتے تشکیل پاتے ہیں۔ دوست، دشمن، محبت وغیرہ۔ انہیں رشتے کو نبھاتے ہوتے انسان جو کردار ادا کرتا ہے اخلاق ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ” میں اخلاق کے درجات کو مکمل کرنے کے لیے آیا ہوں”۔

:-بقول شعر

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان عام سے🔸
دیکھا سحر کا نور زمانے کی شام نے

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عفودرگز

جب خیبر فتح ہوا تو ایک یہودیہ عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کھانا بھجوایا جس میں زہر تھا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہی لقمہ منہ میں ڈالا کہ فورآ پہچان لیا، لیکن زہر نے اپنا اثر کر دیا۔ یہودیہ عورت کو پکڑا گیا اور اس نے اپنا جرم تسلیم بھی کر لیا۔ لیکن اس نے معافی مانگ لی۔ جب مکہ فتح ہوا تو ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کو بہت ڈر تھا کہ میرے والد نے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا اب اس کا خمیازہ مجھے بھگتنا پڑے گا۔ چنانچہ یہ فتح مکہ کے دن وہاں سے بھاگ گئے۔ ان کی بیوی حضرت ام حکیم رضی اللہ تعالٰی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کلمہ پڑھ لیا۔ مسلمان ہونے کے بعد کہنے لگیں۔ جی آپ میرے خاوند کو بھی معاف فرما دیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی معاف کر دیا۔ اب ام حکیم رضی اللہ تعالٰی اپنے خاوند کو تلاش کرنے کے لیے نکلیں۔ جب ایک جگہ دریا کے کنارے پر پہنچیں تو پتہ چلا کہ خاوند کشتی کے ذریعے ابھی یہاں سے روانہ ہوا ہے۔ انہوں نے بھی کشتی کرایہ پر لے لی اور ملاح سے کہا کہ ذرا جلدی چلو کہ مجھے اگلی کشتی میں سوار ایک آدمی سے ملنا یے۔ چنانچہ دریا میں کشتی کے سامنے کشتی لائی گئی اور انہوں نے اپنے خاوند سے پوچھا: جی آپ کہاں جا رہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ کہا کہ میں آپ کی جان کی امان لے کر آئی ہوں۔ چلیں اپنے گھر چلتے ہیں، وہیں زندگی گزاریں گے۔ چنانچہ عکرمہ واپس آ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے آئے۔ ابھی دور ہی تھے کہ ایک صحابی کی نظر پڑی تو وہ صحابی رضی اللہ تعالٰی دوڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ آپ کو بتائیں کہ ابو جہل کا بیٹا آیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیٹے ہوئے تھے۔ جیسے ہی ان صحابی رضی اللہ تعالٰی نے کہا کہ جی عکرمہ آئے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلدی سے اٹھے، سر پر عمامہ رکھنے کا وقت بھی نہ ملا اور فورآ باہر نکل کر فرمایا: اے مہاجر سوار! تیرا آنا مبارک ہو ابو جہل وہی تھا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کی پلاننگ کی تھی۔ آپ نے اس کے بیٹے کے ساتھ بھی ایسا عفودرگز کا معاملہ فرمایا۔
ابو سفیان رضی اللہ تعالٰی کو دیکھ لیجیے۔ نبی کریم کو شہید کرنے کے مشورے میں بھی وہ موجود تھے اور غزوہ خندق کے موقع پر تو وہ غیر مسلموں کے بہت بڑے لیڈر بن کر آۓ۔ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی معاف کر دیا اور ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گیا وہ بھی امان پا گیا۔ اللہ تعالٰی ہمیں بھی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

نگاہ عشق کو مستی میں وہی اول وہی آخر🔸
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسین وہی طہ

اسوہ حسنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے رہنمائی ملتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی نوع انسان میں جو نفرت کے امکانات یا سبب تھے انہیں مٹا دیا۔ اور بہترین سماجی زندگی گزارنے کا طریقہ بتا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔” معاشرتی زندگی گزارتے ہوئے انسان کے سامنے دو مسئلے آتے ہیں۔ اپنی معاشرتی زندگی گزارتے ہوئے کیا حقوق حاصل ہیں؟ اس کے کیا فرائض ہیں؟ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معمولی سے معمولی سرگرمی سے لے کر بڑی سے بڑی سرگرمی تک انسان کی ذمہ داری کا تعین کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” اگر تمہارے ہمسائے میں چالیس گھروں تک کوئی شخص بھوکا سو گیا اس دن جو کچھ تم نے کھایا حرام ہے”۔

-:بقول شاعر

قائد لشکر بھی ہے جو صاحب منبر بھی ہے🔸
شافع محشر بھی ہے اور ساقی کوثر بھی ہے

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” تم میں سے ہر ایک راعی ہے جس اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا”۔
دنیا میں جہاں کہاں بد امنی ہے، بے چینی ہے۔ اس کا سبب حقوق و فرائض کی تقسیم میں عدم موجودگی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری زیادہ اور حقوق کم ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام انسانوں کے لیے حقوق و فرائض کا تعین کیا اور نافذ کر کے دکھایا۔ جس سے ایک بہترین معاشرہ وجود میں آیا جس کی کہیں اور نظر نہیں ملتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالٰی کے حکم پر مکہ سے مدینہ ہجرت کی اور مہاجرین و انصار کو بھائی بھائی بنا دیا اسے مواخاتہ مدینہ کہتے ہیں۔ اس کے تین اہم پہلو ہیں۔
قبائلی اختلافات کو ختم کیا
جغرافیائی تقسیم کو ختم کیا
اخوت اور مساوات کو قائم کر کے دکھایا
-:بقول شاعر

جو نبی کو میرے قبول ہوں وہی کاش میرے اصول ہوں🔸
وہی صبر ہو وہی گفتگو وہی سادگی وہی عاجزی

اختتامیہ

حضور کو تبلیغ حق کے لیے ضرب تیئس برس دیے گئے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ ساری کائنات کے لیے معبوث ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری دنیائے انسانیت کو تبلیغ کرنا تھی۔ لیکن اس حقیقت کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا کہ اس مختصر سی مدت میں اللہ تعالٰی کے اس عظیم رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف دنیائے عرب بلکہ پوری دنیا میں وہ انقلاب عظیم برپا کیا وہ معاشرے جو اپنے افعال و اعمال اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے حیوانوں سے بھی بد تر تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہو کر فرشتوں سے افضل گردانا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گرے پڑوں کو پستیوں سے اٹھا کر بلندیوں پر بٹھا دیا۔ غلاموں کو آقا بنا دیا۔ انہیں لشکروں کی قیادت عطا کی اور انہیں عزت اور احترام کے قابل بنا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاکم بن کر دوسروں کو غلام بنانا نہیں سکھایا بلکہ انہیں امامت کا اہل بنا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے علم عام کیا۔ قرآن کی تعلیمات کے مطابق لوگوں کو دانش و حکمات سکھائی ناکہ وہ دنیا بھر کی امامت کے اہل بن جائیں۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں نے پوری دنیا پر کئی سوسالوں تک حکومت کی اور چھا گئے۔ بقول شاعر

کیا امیوں نے جہاں میں اجالا🔸
ہوا جس سے اسلام کا بول بالا
بتوں کو عرب اور عجم سے نکالا
ہر اک ڈوبتی ناو کو جا سنبھالا

حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی مستقل تہذیب کو وجود میں لا کر رکھ دیا ہے جو صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی ایک قابل تہذیب ہے اور یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محسن انسانیت ہیں انسان کامل ہیں اور ہر لحاظ سے قابل اتباع ہیں۔

میں فقط خاک ہوں مگر نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ سے ہے نسبت میری🔸
یہ ایک رشتہ جو ہے میری اوقات بدل دیتا ہے
تاریخ اگر ڈھونڈے گی ثانی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم🔸
ثانی تو بڑی چیز ہے، سایہ نہ ملے گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *