Hafeez Jalandhari Biography in Urdu

حفیظ جالندھری کی حالت زندگی

حفیظ جالندھری کا پورا نام ابو الاثر حفیظ جالندھری ہے۔ ان کی پیدائش 14 جنوری 1900 کو پنجاب کے مشہور قصبے جالندھر میں ہوئی ۔ حفیظ جالنھری نے ابتدائی تعلیم مسجد سے حاصل کی اور ساتویں جماعت تک اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی مگر ان کی سوچ وفکر لا محدود تھی۔ آپ کا گھرانہ مزہبی طبع کا تھا۔ آپ کے والد شمس الدین حافظ تھے۔ حفیظ جالندھری کو کم عمری میں ہی دین سے لگاؤ ہو گیا تھا۔ ” نغمہ زار “” سوزو ساز” ” تلخابہ شیریں” شاہنامہ اسلام جیسی کتابیں تخلیق کیں۔ حفیظ جالندھری کو پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ 120 ترانوں میں سے حفیظ کے ترانے کو قومی ترانہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ حفیظ کی رومانیت کا ایک زاویہ اسلام اور مشاہیر اسلام ارض وطن اور مشاہیر وطن کی محبت سے بھی عیاں ہے۔ حفیظ نے اقبال حالی اور ٹیگور کے نمایاں اثرات قبول کیے۔ ان کی شاعری میں اخلاقی اور جذباتی دونوں قسم کی اپیل موجود ہے۔

دیکھا جو کھا کے تیر کمی گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادر الکلام شاعر تھے۔ غزل اور نظم دونوں میں کمال کی مہارت حاصل تھی۔ ان ” شاہنامہ اسلام” چار جلدوں میں شائع ہوا۔ نثر میں بھی آپکی درجنوں تصانیف ہیں جن میں ” نثرانے ” “چیونٹی نامہ” بہت مشہور ہیں۔ اسکے علاوہ آپ نے بچوں کیلئے بھی سینکڑوں گیت اور نظمیں لکھیں۔ حفیظ جالندھری نے چوتھی جماعت میں تعلیم کے دوران اپنا پہلا شعر کہا۔

محمد کی کشتی میں ہوں گا سوار
تو لگ جائے گا میرا بیڑا بھی پار

ان کی لکھی گئی نظم ” ابھی تو میں جوان ہوں” آج بھی عوام میں بے حد مقبول ہے جسے نامور گلوکارہ ملکہ پکھراج کی بے مثل گائیکی کی وجہ سے خاص و عام میں شہرت ملی۔
آپ کی تصانیف میں ” افسانوں کا مجموعہ” ” ہفت پیکر” “گیتوں کے مجموعے” “ہندوستان ہمارا اور ” پھول مالی” اور بچوں کی نظمیں اور اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب “چیونٹی نامہ” خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ آپ کو بے شمار خطابات سے نوازا گیا جس میں ” ملک الشعرا” “فردوسی اسلام” ” نواب حسان الملک بہادر” شامل ہیں۔ شاہنامہ اسلام لکھنے کی وجہ سے انہیں ” فردوسی اسلام” کا خطاب دیا گیا۔ آپ کو حکومت کی طرف سے ہلال امتیاز اور تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ دنیا کو اردو ادب کی نئی جہتوں سے روشناس کرانے والے حفیظ جالندھری نے 21 دسمبر 1980 کو لاہور میں 82 سال کی عمر میں وفات پائی۔

حفیظ جالندھری کی نظم پیش نظر ہے

جاگو سونے والو جاگو
وقت کے کھونے والو جاگو
باغ میں چڑیاں بول رہی ہیں
کلیاں آنکھیں کھول رہی ہیں
پھول خوشی سے جھوم رہے ہیں
پتوں کا منہ چوم رہے ہیں
جاگ اٹھے دریا اور نہریں
جاگ اٹھے موجیں اور مہریں
ناؤ چلانے والے جاگے
پار لگانے والے جاگے
ساری دنیا جاگ رہی ہے
کام کی جانب بھاگ رہی ہے
لکھنے پڑھنے والو جاگو
منہ دھو دھا کر ناشتہ کھاؤ
بستہ لے کر مدرسے جاؤ
صبح کا سونا خوب نہیں ہے
اچھا یہ اسلوب نہیں ہے
جاگو سونے والوں جاگو
وقت کے کھونے والو جاگو

حفیظ جالندھری کی بہترین غزل

حسن نے سیکھیں غریب آزاریاں
عشق کی مجبوریاں لا چاریاں
بہہ گیا دل حسرتوں کے خون میں
لے گئیں بیمار کو بیماریاں
سوچ کر غم دیجیے ایسا نہ ہو
آپ کو کرنی پڑیں غم خواریاں
دار کے قدموں میں بھی پہنچی نہ عقل
عشق ہی کے سر رہیں سر داریاں
اک طرف جنس وفا قیمت طلب
اک طرف میں اور میری نا داریاں
ہوتے ہوتے جان دوبھر ہو گئی
بڑھتے بڑھتے بڑھ گئیں بے زاریاں
تم نے دنیا ہی بدل ڈالی میری اب تو رہنے دو یہ دنیا داریاں

Also Read:- Allama Iqbal Essay In Urdu

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *